ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ تعالی علیہ حج کو جار ہے تھے .. سفر میں ایک مقام پر ایک لڑکی کودیکھا کہ کوڑے پر سے کچھ اٹھا رہی ہے ... ذرا اور قریب گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بے بیچاری ایک مری ہوئی چڑیا کو جلدی جلدی ایک چیتھڑے میں لپیٹ رہی ہے..حضرت وہیں رک گئے اور حیرت و محبت کے ساتھ اس غریب بچی سے پوچھا، بیٹی ! تم اس مردار چڑیا کا کیا کروگی؟ اپنے پھٹے پرانے میلے کپڑوں کو سنبھالتے ہوۓ لڑکی کی آنکھوں میں آنسو آگئے ... رندھی ہوئی آواز میں بولی چچامیاں ! ہمارے ابّا کو کچھ ظالموں نے قتل کر دیا اور ہمارا سب مال چھین لیا اور ساری جائیداد ہتھیالی ... اب میں ہوں اور میرا ایک بھائی ہے ... خدا کے سوا ہمارا کوئی سہارا نہیں، اب ہمارے پاس نہ کھانے کے لیے کچھ ہے اور نہ پہننے کے لیے کئی کئی وقت ہم پر ایسے ہی گزر جاتے ہیں . اس وقت بھی ہم چھ وقت کے فاقے سے ہیں . بھیا گھر میں بھوک سے نڈھال پڑا ہے، میں باہر آئی کہ شاید کچھ مل جاۓ . یہاں آئی تو مجھے مردار چڑیا پڑی لی .ہمارے لیے یہ بھی بڑی نعمت ہے یہ کہتے ہوۓ فاقہ کی ماری لڑکی پھوٹ پھوٹ کر رونے گی ۔ حضرت کا دل بھر آیا ... بچی کے سر پر ہاتھ رکھا اور خود بھی رونے لگے ... اپنے خزانچی سے پوچھا ’ ’ اس وقت تمہارے پاس کتنی رقم ہے ؟ ‘ ’ ’ حضرت ایک ہزار اشرفیاں ہیں “ خزاپچی نے جواب دیا.’میرے خیال میں واپس گھر پہنچنے کیلئے تیس اشرفیاں کافی ہوں گی ۔ “ حضرت نے پوچھا .. ’ ’ جی ہاں ! تیس اشرفیاں گھر تک پہنچنے کے لیے بالکل کافی ہیں ۔ “ خزانچی نے جواب دیا ۔ تو پھر تم تیس اشرفیاں اپنے پاس رکھ لو اور باقی ساری رقم اس لڑکی کے حوالے کر دو ... ہم اس سال حج کونہیں جائیں گے ... یہ حج کعبہ کے حج سے بھی زیادہ بڑا ہے . ‘ ‘ حضرت نے فیصلہ کن انداز میں کہا ... خزانچی نے ساری رقم لڑکی کے حوالے کر دی غم اور فاقے سے کملایا ہوا چہرہ ایک دم کھل اٹھا اور لڑکی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرنے لگے اور تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی خوشی خوشی اپنے گھر کو لوٹ گئی .. حضرت نے خدا کا شکر ادا کیا اورخزانچی سے فرمایا’’چلو اب یہیں سے گھر کو واپس چلیں اللہ نے یہیں ہمارا حج قبول فرمالیا .. ‘ ‘
دوسرا واقعہ
ایک شخص سات سو درہم کا مقروض تھا کچھ لوگوں نے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالی سے کہا کہ آپ اس کا قرض ادا کر دیں انہوں نے منشی کو لکھا کہ فلاں شخص کو سات ہزار درہم دے دیئے جائیں یہ تحریر لے کر مقروض ان کے منشی کے پاس پہنچا اس نے خط پڑھ کر حامل رقعہ سے پوچھا کہ تم کو کتنی رقم چاہیے اس نے کہا میں سات سو کا مقروض ہوں اور اسی رقم کے لیے لوگوں نے ابن مبارک رحمہ اللہ تعالی سے میری سفارش کی ہے منشی کو خیال ہوا کہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالی سے سبقت قلم ہوگئی ہے اور وہ سات سو کے بجاۓ سات ہزار لکھ گئے ہیں منشی نے حامل رقعہ سے کہا کہ خط میں کچھ غلطی معلوم ہوتی ہے تم بیٹھو ! میں ابن مبارک رحمہ اللہ تعالی سے دوبارہ دریافت کر کے تم کو رقم دیتا ہوں اس نے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالی کو لکھا کہ خط لانے والا تو صرف سات سو درہم کا طالب ہے اور آپ نے سات ہزار دینے کی ہدایت کی ہے سبقت قلم تو نہیں ہوگئی ہے؟ انہوں نے جواب میں لکھا کہ جس وقت تم کو یہ خط ملے اس وقت اس شخص کو تم چودہ ہزار درہم دے دو منشی نے از راہ ہمدردی ان کو دوبارہ لکھا کہ اس طرح آپ اپنی دولت لٹاتے رہے تو جلد ہی سارا سرمایہ ختم ہو جاۓ گا منشی کی یہ ہمدردی اور خیر خواہی ان کو نا پسند ہوئی اور انہوں نے ذرا سخت لہجہ میں لکھا کہ اگر تم میرے ماتحت و مامور ہو تو میں جو حکم دیتا ہوں اس پر عمل کرو اور اگر تم مجھے اپنا مامور و محکوم سمجھتے ہو تو پھر تم آکر میری جگہ پر بیٹھو ، اس کے بعد جو تم حکم دو گے میں اس پر عمل کروں گا میرے سامنے مادی دولت وثروت سے زیادہ قیمتی سرمایہ آخرت کا ثواب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد گرامی ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کو اچانک اور غیر متوقع طور پر خوش کر دیگا اللہ تعالی اسے بخش دیگا ... اس نے مجھ سے سات سو درہم کا مطالبہ کیا تھا ، میں نے سوچا کہ اس کو سات ہزار ملیں گے تو یہ غیرمتوقع رقم پا کر بہت زیادہ خوش ہوگا اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق میں ثواب کا مستحق ہوں گا دوبارہ رقعہ میں چودہ ہزار انہوں نے اس لیے کرایا کہ غالبا لینے والے کو سات ہزار کاعلم ہو چکا تھا اس لیے اب زائد رقم ہی اس کے لیے غیر متوقع ہوسکتی تھی ...
0 تبصرے