بنی اسرائیل کے ایک راہب نے ساٹھ سال تک عبادت گاہ میں عبادت کی (اور باہر کبھی نہ نکلا) ایک دن وہ آسمان کی فضا میں آیا اسے یہ زمین بڑی اچھی لگی تو اس نے کہا کہ میں عبادت گاہ سے نکلوں زمین پر چلوں دیکھوں تو بڑا اچھا ... تو وہ اترا اس کے ساتھ ایک روٹی تھی ، ادھر اچانک ایک عورت سامنے نظر آ گئی اس عورت نے اسے برائی پر آمادہ کیا ، وہ نفس پر قابو نہ رکھ سکا اور گناہ میں مبتلا ہو گیا ... چنانچہ ادھر اس راہب کے مرنے کا وقت آ گیا ، ایک سائل آیا راہب نے وہ روٹی اسے دے دی اور کچھ دیر بعد راہب مر گیا ...
چنانچہ حساب کتاب کے وقت ساٹھ سال کی عبادت کو ایک پلڑے میں رکھا گیا اور گناہ کوایک پلڑے میں رکھا گیا تو گناہ اس کے عمل پر غالب آ گیا ۔ پھر اس روٹی کاصدقہ لایا گیا جو اس نے صدقہ کی تھی اور اس صدقے کو اس کے گناہ کے ساتھ ملا کر تولا گیا تو صدقہ گناہ پر غالب ہوگیا ۔
ایک جگہ یہ واقعہ اس طرح لکھا ہے ... کہ حضرت ابوموسی کی وفات کا وقت آ گیا تو انہوں نے کہا بیٹے روٹی والے کا واقعہ یادکر ایک عبادت گزار تھا جو ستر سال تک عبادت گاہ میں مشغولِ عبادت رہا اور عبادت گاہ سے کبھی نہ ہٹا ... ہاں مگر ایک دن وہ عبادت گاہ سے باہر نکلا .. شیطان نے آنکھ کے سامنے ایک عورت کو پیش کر دیا ، قریب ایک ہفتہ اس کے ساتھ رہا ... جب آنکھ سے پردہ ہٹا تو توبہ کی ... ایسی توبہ کی کہ ہر قدم پر سجدہ کرتا اور نماز پڑھتا ، ایک دن تھکا ہارا ایک دکان پر پہنچا جس پر 12 مسکین رہتے تھے وہ تھکا ہوا تھا اس نے اپنے آپ کو ان مسکینوں کے درمیان ڈال دیا ... (تا کہ چھپ جاۓ) وہاں نزدیک ہی ایک راہب رہتا تھا وہ راہب ہر رات ان بارہ مسکینوں کو روٹی بھیجتا تھا ... ہر ایک مسکین کوایک روٹی ملتی تھی چنانچہ وہ روٹی دینے والا آیا ، ہر ایک کو ایک ایک روٹی دی . اس توبہ کرنے والے کے پاس آیا تو اس کو بھی ایک روٹی دے دی ، اس نے سمجھا کہ یہ بھی مسکین ہے تو بارہ مساکین میں سے ایک چھوٹ گیا ... جس مسکین کو روٹی نہیں ملی اس نے روٹی بانٹنے والے سے کہا مجھے روٹی کیوں نہیں دی؟ روٹی بانٹنے والے نے کہا تمہارا خیال ہے کہ میں نے جان بھوجھ کے تمہیں روٹی نہیں دی ،(روٹی دینے والےکو نہیں معلوم تھا کہ ایک اجنبی شخص یہاں چلا آیا ہے اور اسے روٹی مل گئی ہے) اس نے کہا معلوم کرو کسی کو دو روٹیاں تو نہیں مل گئیں باقی مسکینوں نے کہا نہیں ہمیں تو ایک ایک ہی روٹی ملی ہے ... اس توبہ کرنے والے نے اپنی روٹی اس مسکین کو صدقہ کردی جسے روٹی نہیں ملی تھی.. اسی رات اس توبہ کرنے والے کا انتقال ہوگیا..اس کی ستر سال کی عبادت کا موازنہ ان سات دنوں سے کیا گیا جب سے وہ عبادت سے ہٹا تھا اور عورت کے ساتھ لگ گیا تھا، تو سات دن والا پلڑا جھک گیا ... پھر صدقہ کی روٹی کے ساتھ اسے ناپا گیا تو روٹی والا پلڑ ا جھک گیا ... جس سے اس توبہ کرنے والے کی نجات ہوگئی پھر ابوموسی نے اپنے بیٹے سے کہا روٹی والا واقعہ یاد رکھو! ...
فائدہ : یعنی بار بار صدقہ کرتے رہو تاکہ یہ صدقات گناہوں پر بھاری ہو جائیں
نوٹ : یہ واقعہ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کی لکھی گئی کتاب "سخی لوگ" سے لیا گیا ہے
0 تبصرے