سالم بن ابی المعبد سے روایت ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم میں ایک شخص تھا جو لوگوں کو تکلیف دیتا تھا ، لوگوں نے کہا اے اللہ کے نبی ! اس پر بد دعا کر دیجئے ، انہوں نے جواب دیا جاؤ تم لوگ اس کے شر سے بچالئے جاؤ گے ... یہ ہر دن لکڑیاں چننے نکلتا تھا ... ایک دن لکڑیاں لینے نکلا ، اس کے پاس دوروٹیاں تھیں ، ایک کھائی اور دوسری کو صدقہ کر دیا اور لکڑیاں چننے چلا گیا اور شام کو لکڑیاں چن کر صحیح سالم واپس آگیا یہی اس کو روزانہ کا معمول تھا لکڑیاں چننے جاتا، ایک روٹی صدقہ کر دیتا اور شام کو صحیح سلامت واپس آجاتا...قوم حضرت صالح علیہ السلام کے پاس آئی اور کہا وہ تو روز صحیح سالم واپس آ جاتا ہے اس کو تو کچھ بھی نہیں ہوتا تو حضرت صالح علیہ السلام نے اس کو بلایا اور پوچھا تم روز کیا کرتے ہو ؟ اس نے کہا میں جاتا ہوں ، دوروٹیاں میرے پاس ہوتی ہیں ، ایک روٹی کھالیتا ہوں ، دوسری صدقہ کر دیتا ہوں ... حضرت صالح علیہ السلام نے کہا لکڑی کا گٹھڑ کھولو ، کھولا تو اچانک ایک بڑا اژدھا نکلا جولکڑی کے گھڑے سے چپکا ہوا تھا تو حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا ، اس صدقہ کی وجہ سے تم اس سانپ سے بچ گئے ...
فائدہ : دیکھئے اس روایت میں اس شخص کے ظلم اور اذیت رسانی کی پاداش میں بلا سانپ بن کر تو آ ئی مگر صدقہ خیرات کی برکت سے وہ بلا نقصان نہ پہنچا سکی..معلوم ہوا کہ آئی بلا سے صدقہ خیرات کے ذریعے راحت ونجات مل سکتی ہے ...
ناپاک حیوان پر ترس کھانے پر ظالم کی مغفرت کا واقعہ
حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ تعالی تحریر فرماتے ہیں کہ بخارا کا ایک حاکم (گورنر) بڑاسخت ظالم و جابر تھا..ایک مرتبہ وہ اپنی سواری پر کہیں جارہا تھا راستہ میں ایک کتا نظر آیا جس کے جسم پر خارش ہورہی تھی اور سردی کی وجہ سے وہ ٹھٹھک رہا تھا.اس ظالم بادشاہ کی نظر اس کتے پر پڑتے ہی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور اپنے ایک خادم سے کہا اس کتے کو میرے گھر لے جاؤ اور میری واپسی تک اس کا خیال رکھنا یہ کہ کر جہاں جانا تھا چلا گیا سفر سے جب واپس آیا تو اس کتے کومنگوایا اور مکان کے ایک کونے میں اسے رکھوادیا اس کے سامنے کھانا پانی رکھوایا اس کے بدن پر تیل دوائی وغیرہ لگوائی مالش کرائی اور اسے اچھے گرم کپڑوں میں لپیٹا... اس کے قریب آگ جلوائی تا کہ سردی کا اثر ختم ہو جاۓ اس طرح اس کی خدمت اور تیمار داری کی گئی اتفاقاً اس واقعہ کے دو چار دن بعد ہی اس ظالم بادشاہ کا انتقال ہوگیا اسی شہر میں رہنے والے ایک بزرگ جو اس ظالم بادشاہ کے ظلم وستم اور سفاکی سے اچھی طرح واقف تھے ... انہوں نے اس بادشاہ کو خواب میں دیکھا کہ وہ جنت میں ٹہل رہا ہے اس بزرگ نے بادشاہ سے پوچھا .. کہو کیسی گزری ؟ اس نے جواب دیا کہ اللہ تعالی نے مجھے اپنے سامنے کھڑا کیا اور فرمایا کہ تو کتا تھا یعنی تو انسانوں جیسے نہیں بلکہ کتوں جیسے چیر پھاڑنے کے کام کیا کرتا تھا اس لئے ہم نے بھی تمہیں ایک کتا ہی دے دیا اس خارشی مظلوم ومریض کتے کی خدمت کے طفیل میں تیری مغفرت کر دی اور میرے ذمے ظلم کرنے کی وجہ سے جو مالی و جانی حقوق وغیرہ تھے ان کی ادائیگی کی ذمہ داری خود اللہ تعالی نے اپنے ذمہ لے لی ... اس طرح ایک مریض مظلوم نا پاک کتے کی خدمت و یار داری کی وجہ سے اللہ تعالی نے لوگوں کے حقوق سے مجھے بری کر دیا...
نوٹ : یہ واقعہ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کی لکھی گئی کتاب "سخی لوگ" سے لیا گیا ہے
0 تبصرے