حاتم طائی اپنے سے بڑے سخی کے دستر خوان پر


ایک آدمی نے حاتم طائی سے پوچھا ... اے حاتم ... کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ جود و کرم میں تم پر کوئی سبقت لے گیا ہو ؟ ... تو حاتم طائی نے جواب دیا ... ہاں طئی کا ایک یتیم لڑکا جود وکرم میں مجھ سے سبقت لے گیا میں اس کے یہاں مہمان بنا تھا اس کے پاس دس بکریاں تھیں اس نے ایک بکری ذبح کی ... اور اس کا گوشت پکا کر میرے سامنے رکھا ... جو کچھ اس نے میرے سامنے رکھا اس میں مغز بھی تھا میں نے کھانا کھایا اور خاص کر مغز میں نے بہت پسند کیا اور کہا کہ قسم خدا کی ! بڑا مزیدار ہے ... وہ چپکے سے میرے پاس سے اٹھا اور ایک ایک بکری ذبح کرتا گیا اور اس کا مغز میرے سامنے رکھتا گیا ... اور مجھے پتا بھی نہیں چلا ... جب میں وہاں سے جانے کے لیے گھر سے باہر نکلا ... تو چاروں طرف خون ہی خون تھا ... اس نے اپنی ساری بکریاں ذبح کر ڈالی تھیں ... میں نے اس سے کہا ... تم نے ایسا کیوں کیا ؟ ... تو وہ بولا ... سبحان اللہ ! ... میرے پاس تمہاری پسند کی کوئی چیز ہو اور میں بخل سے کام لوں ... یہ تو ایک عربی کے لیے بڑی شرم اور عار کی بات ہوگی ... تو کہا گیا ... اے حاتم ! ... پھرتم نے اس کا بدلہ کس طرح دیا ؟ ... تو حاتم نے کہا ... میں نے اسے تین سو لال اونٹیاں اور پانچ سو بکریاں دیں ... تو کسی نے کہا ... تو پھر تو تم اس سے زیادہ فیاض ہوۓ ؟ ... تو حاتم نے کہا ... نہیں وہ مجھ سے زیادہ فیاض ہے ... کیونکہ اس کے پاس جو کچھ تھاوہ سب کا سب اس نے میرے سامنے لاکر رکھ دیا ... جبکہ میں نے اسے جو بھی دیا ... وہ میرے بے تحاشا مال و دولت کا بہت تھوڑا سا حصہ تھا ...


امام زین العابدین رحمہ اللہ کی مخفی سخاوت

امام زین العابدین علی بن حسین رحمہ اللہ روٹیوں کا تھیلا اپنی کمر پر اٹھا کر صدقہ کیا کرتے تھے جب ان کا انتقال ہوا تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ اہل مدینہ میں سے 100 گھروں کی کفالت کیا کرتے تھے . حضرت جریر کہتے ہیں ان کی وفات کے بعد لوگوں نے ان کی کمر پر وہ نشانات دیکھے جو ان تھیلوں کی وجہ سے پڑ گئے تھے جنہیں رات کے اندھیرے میں وہ مساکین کے پاس لے جایا کرتے تھے. محمد بن اسحاق سے منقول ہے کہ مدینہ میں کچھ لوگ رو رہے تھے اور ان کو معلوم تک نہ تھا کہ ان کا گزر بسر کیسے ہو رہا ہے جب حضرت امام زین العابدین علی بن حسین رحمہ اللہ کا انتقال ہوا تو انہوں نے نان نفقہ نہ پایا جو ان کے پاس رات کو لایا جاتا رہا، منقول ہے کہ ہم نے مخفی صدقہ برابر موجود پایا یہاں تک کہ حضرت علی بن حسین رحمہ اللہ کا انتقال ہوگیا.

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے