امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے۔ کہ ایک کنیز ہارون الرشید کی کنیزوں میں سے ہارون رشید کے پاس موجود تھی اور ہارون الرشید کے سامنے ایک جواہرات کی مالا رکھی ہوئی تھی ۔ ہارون الرشید اس کو اٹھا کر الٹنے پلٹنے کا مشغلہ کرنے لگے ۔ پھر ایک دو دن بعد اچانک وہ مالا غائب ہو گئی ۔ ہارون نے اس کنیز پر تہمت لگائی کہ اس نے مالا چوری کی ہے ۔ جب کنیز سے دریافت کیا تو اس نے انکار کیا ۔ ہارون الرشید نے قسم کھالی کہ میں نے اگر اس سے چوری کا اقرار نہ کرالیا تو میری بیوی پر طلاق اور میرے سب مملوک آزاد اور مجھ پر حج لازم ۔ وہ کنیز برابر انکار پر قائم رہی اور ہارون ریشید اس پر تہمت لگاتے رہے اب ہارون الرشید کو قسم ٹوٹنے کا اندیشہ لاحق ہو گیا تو امام ابو یوسف رحمہ اللہ کو بلا کر پورا قصہ سنایا انہوں نے کہا کہ اس کنیز سے مجھے بات کرنے کا موقع عنایت فرما دیجئے اور ہمارے ساتھ ایک خادم ہوگا تا کہ میں آپ کو اس قسم سے آزاد کر سکوں ۔ ہارون الرشید نے اس کا انتظام کر دیا ۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے اس کنیز سے مل کر کہا کہ جب امیر المؤمنین تجھ سے ہار کے بارے میں سوال کریں تو تم ان سے انکار کر دینا پھر جب دوبارہ سوال کریں تو کہہ دینا کہ ہاں ہار میں نے چرایا ہے ۔ پھر جب تیسری مرتبہ سوال کریں تو کہہ دینا کہ میں نے نہیں لیا ۔ یہ سمجھا کر واپس تشریف لاتے وقت خادم کو یہ ہدایت کر دی کہ اس گفتگو کی امیر المؤمنین کو اطلاع نہیں ہونی چاہیے اور ہارون الرشید سے آپ نے کہا اے امیرالمؤمنین آپ اس کنیز سے ہار کے بارے میں تین مرتبہ پے در پے سوال کیجئے وہ آپ کی تصدیق کرے گی ۔ خلیفہ نے جا کر اس سے سوال کیا اس نے پہلی مرتبہ انکار کیا پھر دوسری مرتبہ سوال کیا تو اس نے کہا ہاں میں نے ہار لیا ہے ۔خلیفہ نے کہا تو کیا کہہ رہی ہے ۔ اس نے کہا واللہ میں نے نہیں لیا۔ لیکن مجھے ابو یوسف نے ایسا سمجھایا تھا ۔ پھر خلیفہ نے امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے کہا یہ کیا معاملہ ہے آپ نے فرمایا اے امیر المؤمنین آپ کی قسم پوری ہو چکی ہے کیونکہ اس نے آپ کوخبر دی کہ اس نے ہار لیا اور پھر خبر دی کہ نہیں لیا تو دونوں میں سے ایک جواب میں وہ سچی ہے اور اب آپ اپنے حلف کی قید سے نکل چکے ہیں ۔ کیونکہ کہ آپ نے قسم کھائی تھی کہ میں اس سے چوری کا اقرار کرواؤں گا تو لہذا چوری کا اقرار اس نے کر لیا ہے ۔ہارون بہت خوش ہوۓ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کو انعام دیا ۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ ہار بھی مل گیا ۔
نوٹ : یہ واقعہ امام ابن جوزی بغدادی رحمہ اللہ کی کتاب " خطبات علمیہ" سے لیا گیا ہے۔
0 تبصرے