تین حضرات کی سخاوت کا امتحان ہثیم بن عدی کہتے ہیں کہ تین افراد کا بیت اللہ میں اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ اس دور کا سب سے بڑا سخی کون ہے ؟ ایک نے کہا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہ دوسرا بولا قیس بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ تیسرا بولا نہیں عرابہ اوسی رضی اللہ تعالی عنہ ... گفتگو نے طول کھینچا ہر ایک اپنے حق میں دلائل دے رہا تھا . حتی کہ آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں ... کچھ لوگ بھی اکٹھے ہو گئے ... ان میں سے ایک شخص بولا بھائیو ! کیوں لڑائی کر رہے ہو ؟ ایسا کرو کہ ہر شخص اپنے پسندید شخص کے پاس چلا جائے اور اس سے کچھ مانگے اور جو کچھ وہ دے ... وہ آکر یہاں بتادے پھر اس بات کا جائزہ لے لیتے ہیں کہ بڑا سخی کون ہے ؟ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کا عقیدت مند ان کے گھر گیا اور ان سے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بھتیجے ! میں مسافر ہوں اور زادراہ ختم ہے ... مدد کا طلبگار ہوں عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہ اس وقت گھوڑے پر سوار کہیں جانے کے لیے تیار تھے .. اسی وقت گھوڑے سے نیچے اترے اورفرمایا گھوڑے کی رکاب پر پاؤں رکھو اور اس پرسوار ہو جاؤ اب یہ گھوڑا تمہارا ہے اس کے ساتھ ایک تھیلا بھی ہے اس میں جو کچھ ہے وہ بھی تمہارا ہے اور ہاں اس میں ایک تلوار بھی ہے .. اس کو معمولی نہ سمجھنا ... یہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی تلوار ہے ... جب وہ خوبصورت سا گھوڑا لے کر اپنے دوستوں کے پاس واپس آیا اور تھیلا کھولا تو اس میں چار ہزاردیناراور ریشمی چادریں تھیں اور ان سب پر مستزاد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی تلوار تھی۔ قیس بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ کا عقیدت مند ان کے گھر گیا تو وہ سوئے ہوۓ تھے ۔ لونڈی نے پوچھا تمہیں کیا ضرورت ہے ؟ اس نے کہا مسافر ہوں اور زادراہ ختم ہو گیا ہے لونڈی نے کہا تمہاری اس معمولی سی حاجت کے لیے شیخ کو اٹھانا اچھی بات نہیں ہے یہ تھیلی پکڑو اس میں سات سود دینار ہیں ... اس وقت قیس کے گھر میں یہی کچھ موجود ہے ... گھر کے ساتھ ہی حویلی میں اونٹ بندھے ہوۓ ہیں .اپی مرضی کا اونٹ پسند کرلو اور غلام کو اپنی خدمت کے لیے ساتھ لے کر سفر پر روانہ ہو جاؤ . . تھوڑی دیر کے بعد قیس رضی اللہ تعالی عنہ بھی اٹھ گئے ... لونڈی نے قصہ بیان کیا کہنے لگے .. بہتر تھا مجھے اٹھا لیتی اور میں خود اس کی حاجت پوری کرتا ... نہ معلوم جو کچھ تم نے اسے دیا ہے ... اس کی ضرورت کے مطابق ہے یانہیں ... تاہم تم نے جو اچھا کام کیا ہے..اس کے بدلے میں تمہیں آزاد کرتا ہوں ... ادھر عرابہ بن اوسی رضی اللہ تعالی عنہ کا عقیدت مند بھی ان کے گھر جا پہنچا .اس وقت نماز کا وقت ہو چکا تھا ... عرابہ رضی اللہ تعالی عنہ بہت بوڑھے اور نابینا ہو چکے تھے ... نماز کے لیے گھر سے نکل رہے تھے ... دوغلاموں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوۓ آہستہ آہستہ چلتے ہوۓ مسجد کی طرف رخ کیے ہوۓ تھے ... اس آدمی نے کہا اے عرابہ ! میری بات سنیں گے ؟ عرابہ رضی اللہ تعالی عنہ بولے ... بولو کیا کہتے ہو ؟ کہنے لگا میں مسافر ہوں اور میرا زاد راہ ختم ہو گیا ہے ۔ عرابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ غلاموں کے کندھوں سے ہٹاۓ اور بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ پرزور سے مارا اور کہنے لگے ..عرابہ نے اپنا تمام مال و دولت خرچ کر دیا ہے مگر یہ دوغلام باقی ہیں . . تم ان دونوں کو لے جاؤ .اب یہ تمہارے ہو گئے اس آدمی نے کہا .حضرت ! ایسے کیسے ہوسکتا ہے ... آپ خودسخت ضرورت مند ہیں ۔ میں نہیں لوں گا عرابہ رضی اللہ تعالی عنہ کہنے گے سنو اب سے یہ تمہارے ہیں اور اگر تم چاہو تو آزاد کر دو اور چاہو تو رکھ لو ۔ یہ کہنے کے بعد آگے بڑھے دیوار کا سہارا لیا اور ٹٹولتے ہوۓ مسجد کی طرف چل دیے ... اس شخص نے ان دونوں غلاموں کو ہمراہ لیا اور اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آ گیا تینوں دوست پھر سے اکٹھے ہوۓ ... ہر ایک نے اپنے عطیے اور سلوک کا ذکر کیا اوران تینوں کی تعریف کی کہ بلاشبہ یہ تینوں بہت سخی ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں..اب رہا یہ فیصلہ کہ سب سے بڑا سخی کون ہے ؟ تو فیصلہ عرابہ اوسی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں ہوا کیوں کہ انہوں نے سارا مال تنگ دستی کے باوجود خرچ کر دیا تھا...
0 تبصرے